جمعہ، 11 مئی، 2012

ترمیم و تدوین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

ترمیم و تدوین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

 

نَحمد ہ وَ نصَلی عَلٰی رَسو لہ الکریم۔ امّا بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔

۔

قبل از ۲۰۰۳ء؁‘ ہم ’’ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز‘‘ سے بالکل ناواقف تھے۔ ۲۰۰۳ء؁ کے بعد ہمیں ملفوظاتِ محبوبِ ذات کے بارے میں علم ہوا اور ہم نے بھی‘ دیگر معتقدین و مریدین کی طرح‘ بہت شوق سے اس کتاب کو خریدا۔ بہت دیر تک اسے نہ پڑھ سکے۔ ہمیشہ ہماری یہ ہی خواہش رہتی کہ اسے پڑھا جائے۔ چونکہ پہلے اسکول کے علاوہ کوئی کتاب نہ پڑھی تھی‘ اس لیے کتاب پڑھنا ہمارے لیے ایک مشکل ترین عمل تھا۔ اب جب بھی کبھی کوئی پرانا قصہ یاد آ جائے تو سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔

۲۰۰۷ء؁ سے قبل بہت دفعہ اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش بھی کی ہو گی مگر پوری طرح کامیاب نہیں۔ پھر ایک دن سوچا کہ کیوں نہ یہ کتاب کمپیوٹر پر لکھی جائے تاکہ کل کو ویب سائٹ (website) پر بھی دی جا سکے۔ یوں تو پرانے ایڈیشن بھی کمپیوٹر پر ہی لکھے ہوئے تھے مگر ہم اس کو یونیکوڈ (Unicode) میں کرنا چاہتے تھے تاکہ بآسانی‘ کسی بھی شخص کے لیے‘ کچھ بھی تلاش کرنے کے لیے سہولت دستیاب رہے۔ ہم نے اس کتاب کو ایسے گہرے خیالات کی وادی میں اتر کر پڑھنا شروع کر دیا کہ یوں ہی محسوس ہوتا تھا کہ حضرت سخیٔ کامل سیّد محمد افضال احمد حسین گیلانی قدس سرہٗ العزیز (مصنف کتابِ ہذا) خود اس کتاب کو پڑھ کر سنا رہے ہوں۔ اسی دوران ایسے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ جنہیں یہاں پر زیرِ تحریر لانا ہمیں مناسب نہیں لگتا۔ ہمیں امید ہے کہ اگر آپ بھی اس کتاب کا عقیدت سے مطالعہ کریں گے تو آپ پر بھی عنایات کے بادلوں سے برکات کی بارش کا نزول ہو گا۔

 

 

۲۰۰۸ء؁ تک تو یہ کام مسلسل آرام سے چلتا رہا مگر اس کے بعد اس کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔ کبھی اگر یاد آ جاتا تو اس کام کو دوبارہ جاری کر لیتے‘ ورنہ یہ اسی طرح ایک کونے میں پڑا رہتا۔ ہمارے ذہن میں تو شاید اگلے پانچ سالوں تک اس کی تکمیل کا نقشہ تک نہ تھا۔ ابھی تو صرف اسی طرح لکھی جا رہے تھے جس طرح یہ پہلے بے شمار چھوٹی چھوٹی اغلاط سے بھری پڑی تھی۔ چونکہ آیاتِ قرآنیہ بمع اعراب ایک مشکل کام تھا، اس لیے ایک کمپیوٹر میں لکھے ہوئے قرآن سے آیات نقل کرتے اور اس کتاب میں جوڑ دیتے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ بعد میں آیات کے اعراب‘ پھر تصحیح اور پھر نظرِ ثانی کا کام جاتا رہا۔ چونکہ وہ قرآن کسی تنظیم نے نہیں لکھا تھا اور نہ ہی اس کی تصدیق کسی عالم یا ادارے نے کی تھی‘ اس لیے ان آیات کی بھی‘ قرآن سے دیکھ کر تصدیق ضروری تھی۔ گو یہ اُن صاحب کی بہت اچھی کاوش تھی مگر پھر بھی آخری چار سپاروں میں چند اغلاط موجود تھیں۔ اس کمپیوٹر میں لکھے ہوئے قرآن کو استعمال کرنے کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ جن آیاتِ قرآنیہ کے حوالے پہلے کتاب میں موجود نہ تھے‘ وہ بھی بآسانی تلاش کر لی گئیں اور وہ حوالے بھی درج کر دیئے گئے تاکہ لوگوں کو تلاش کرتے ہوئے کوئی مشکل پیش نہ آئے اور تصدیق کرتے وقت بھی آیات تک بآسانی پہنچا جا سکے۔

          چونکہ ہمارا خیال تھا کہ اسے ابھی دو تین مرتبہ صرف اپنے لیے چھاپا جائے اور دو تین دفعہ تصحیح کے بعد پڑھا جائے‘ اس لیے اس کی اشاعت کا خیال تو ابھی ذہن کے کسی کونے میں بھی دور دور تک نہ تھا۔ ہمارا شروع سے ہی یہ خیال رہا ہے کہ غلطی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور غلطی سرزد ہونا کوئی غیر معمولی عمل نہیں۔ اس لیے ہمیں ایک شے کو بار بار صحیح کرنا چاہیے اور مختلف اشخاص سے یہ عمل کروانا چاہیے۔ کافی مرتبہ‘ لکھنے والا بے حد احتیاط کے باوجود چند اغلاط کو تسلسل میں پڑھتے ہوئے نظر انداز کر دیتا ہے کیونکہ وہ تمام چیز اُس کے دماغ میں پہلے ہی بیٹھی ہوتی ہے۔ دوسرے شخص کے لیے یہ چیز پوری طرح نئی ہوتی ہے اور وہ اس کی عبارت اور متن سے ناواقفیت کی وجہ سے زیادہ احتیاط سے اغلاط کی نشاندہی کرتا ہے۔

چند اشخاص کے علم میں یہ بات تو آ چکی تھی کہ ملفوظاتِ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز میں بہت سی ایسی اغلاط موجود ہیں کہ جن کی تصحیح لازمی ہے۔ مثلاّ:۔ آیاتِ قرآنیہ پر اعراب کی اغلاط وغیرہ۔ اکثر ہم نے ان اغلاط کے بارے میں حضرتِ سجادہ نشین کو مطلع کیا اور ان سے کہتے رہے کہ ہم نے بہت سی اغلاط کی نشاندہی کر لی ہے اور اس کتاب کی دوبارہ اشاعت سے قبل ہم سے ضرور رابطہ کریں۔ ایک دن حضرتِ سجادہ نشین نے اس کے متعلق پوچھا تو ہم نے کہا کہ ابھی پوری کتاب نہیں لکھی اور ہم نے اغلاط بھی کتاب کے اوپر لگائیں ہیں‘ کمپیوٹر پر نہیں۔ ہم سے وہ کتاب وصول کر لیں اور ان اغلاط کی تصحیح کروا لیں۔ لیکن حضرتِ سجادہ نشین نے کہا کہ ہم خود ہی‘ فارغ ہو کر‘ اس کتاب کو مکمل کر دیں۔ اس وقت تک ہمارا خیال تھا کہ جب ہم وہ کتاب تیار کر کے دیں گے‘ اس کے بعد اشاعت کا کام شروع ہو گا۔

آج کل کی تکنالوجی کی دنیا میں ان اغلاط کی وجہ تحریر کرنا کوئی ضروری چیز تو نہیں کیونکہ تقریباً ہر شخص اس سے آگاہ ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم چاہیں گے کہ یہاں اس چیز کی بھی تفصیل بیان کر دیں تاکہ ان لوگوں کو بھی اس کے بارے میں علم ہو جائے جو کمپیوٹر اور کمپیوٹر کے دور کی کتابت و اشاعت سے ناواقف ہیں۔ کمپیوٹر کی کتابت روایتی کتابت کی طرح نہیں۔ روایتی کتابت میں کاتب کے ہاتھ کو یہ علم ہوتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے (جب تک اُس کا دماغ پوری طرح کتابت کی طرف ہو)جبکہ کمپیوٹر میں ہر بٹن ایک حرف کے لیے مخصوص ہے۔ عربی یا فارسی رسم الخط، لاطینی رسم الخط سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں ایسی زُبانیں ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں جتنی لاطینی رسم الخط کی زبانیں ترقی یافتہ ہیں‘ گو کہ اب اردو بھی بہت ترقی کر چکی ہے۔ اس وجہ سے اردو میں اغلاط کا امکان لاطینی زبانوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے‘ گو کہ دونوں زبانوں کے ٹائپسٹ (typist) یعنی لکھنے والے اغلاط تو ایک جتنی ہی کرتے ہیں۔

کتاب میں اغلاط کا سب سے پہلا ذمہ دار مصنف نہیں بلکہ ٹائپسٹ ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں اس کام کو بخوبی انجام دینے کے لیے ہاتھ کو قابو میں رکھنا ہوتا تھا جبکہ آج کل اس کام کو بخوبی انجام دینے کے لیے ذہن کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ اردو میں تو جو اغلاط آتی ہیں سو آتی ہیں‘ قرآن کی آیات بھی اتنی ہی تیز رفتار میں لکھی جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے اعراب کا مسئلہ تو عام ہے۔ رسالہ ماہنامہ سوہنے مہربان کےلیے مفتی شفیع گولڑوی صاحب نے رائے دی تھی کہ آیات اور احادیث پر اعراب نہ لگائے جائیں۔ اس کے برعکس ہماری یہ رائے تھی کہ احادیث پر تو ٹھیک ہے مگر آیات پر اعراب لازماً لگائے جائیں تاکہ کوئی شخص انہیں غلط نہ پڑھے۔

اس غلطی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ ہم لوگ عربی نہیں‘ اس وجہ سے ہمیں غور سے پڑھ کر بھی‘ قرآن کو ساتھ رکھے بغیر یہ سمجھ نہیں لگ سکتی کہ آیت میں غلطی کہاں ہے۔ اس غلطی سے بچنے کا ایک حل یہ ہے کہ ہمیں قرآنی آیات کے معاملہ میں کم از کم اپنے حافظے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور کلامِ پاک کو کھول کر تصدیق کرنے کی بھی زحمت کر لینی چاہیے۔ یہ غلطیاں اگر عام ہیں تو یقیناً ملفوظاتِ محبوبِ ذات کے پرانے ہر ایڈیشن میں آئی ہیں اور اسی وجہ سے ہم انہیں یہاں تفصیل سے بیان کر رہے ہیں۔

دوسری طرح کی غلطی جو عام ہے وہ یہ ہے کہ ٹائپسٹ فقط اپنی جان چھڑانے کے لیے یا کتاب کی خوبصورتی کےلیے ضروری علامات مثلاً وقفہ اور فاصلہ وغیرہ نہیں لگاتے یا پھر یہ علامات بے جا لگا دیتے ہیں۔ در اصل پرانے زمانہ میں کاتب سطر میں چند الفاظ کو کشش کے ذریعے کھینچ کر حاشیہ برابر رکھتے تھے اور خوبصورتی برقرار رکھتے تھے کیونکہ فارسی رسم الخط میں الفاظ کے درمیان خالی جگہ نہیں ہوتی (جس طرح لاطینی رسم الخط میں ہر لفظ کے درمیان دیکھنے کو ملتی ہے) اور یہ خالی جگہ فارسی رسم الخط کی خوبصورتی کو کم کر دیتی ہے۔مگر گو کہ کمپیوٹر میں کشش کی سہولت بھی موجود ہے‘ ہم لوگوں کو ہزاروں روپیوں کی اصل سی۔ ڈی کی بجائے پندرہ یا بیس روپے کی نقلی سی۔ڈی خریدنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ اس وجہ سے اُن پروگراموں میں کشش کی سہولت استعمال نہیں ہو سکتی جس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹائپسٹ بے جا علامات لگا دیتا ہے‘ اس چیز سے بے خبر کہ یہ عبارت کے معنی کو بھی بدل سکتی ہیں۔

ابھی ہمارے امتحانات شروع بھی نہ ہوئے تھے کہ حضرتِ سجادہ نشین فیصل آباد گئے تو پریس پر بھی تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے ہماری بات پریس والوں سے کروائی اور پھر ہمیں معلوم ہوا کہ نہ تو اس کتاب کی کوئی پرانی کمپیوٹر فائل موجود ہے اور نہ ہی یہ کتاب اتنی تعداد میں موجود ہے کہ عرس شریف کے موقع پر تقسیم کی جا سکے۔ مئی کے آغاز تک ہم نے اس کتاب کو مکمل کیا اور مئی کے اختتام پر لاہور‘ مرزا سعید صاحب کے پاس‘ گئے اور اسے نئے ڈیزائن میں تیار کیا اور اغلاط کی تصحیح کی پوری پوری کوشش کی۔ جولائی میں ملفوظاتِ محبوبِ ذات کا چوتھا ایڈیشن شائع ہو گیا۔

ایڈیشن چہارم کی تین خاص چیزیں‘ جو اسے مزید خوبصورت بناتی ہیں‘ وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱)       اردو میں کشش کا استعمال کیا گیا۔

۲)       قرآن کی آیات کے لیے وہی خط استعمال کیا گیا جو عموماً قرآنِ مجید کے پاکستانی نسخوں میں ملتا ہے۔ ایک تو لوگوں کو عادت کی وجہ سے اس خط میں پڑھنے میں آسانی ہو گئی اور آیات و اعراب بھی واضح ہو گئے‘ دوسرا یہ ہے اس میں نکتے کے بغیر والے شوشے اور بڑی چھوٹی‘ دونوں طرح کی‘ مد بھی لگی ہوئی تھی جو پرانے ایڈیشن میں نہ تھی۔

۳)       اس ایڈیشن میں حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کا سارا کلام شامل کر دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ‘ قارئین کرام یہ باتیں پانچویں ایڈیشن میں بھی پائیں گے اور ان شاء اللہ‘ پانچویں ایڈیشن کو چوتھے ایڈیشن سے بہتر اور خوبصورت پائیں گے۔

چوتھے ایڈیشن سے لکھائی بھی چھوٹی کر دی گئی تھی تاکہ یہ کتاب اشتہار کم اور کتاب زیادہ لگے۔ گو کہ ہمیں اس چیز کا خیال ہے کہ بزرگوں کو کتاب پڑھنے میں دشواری ہو گی مگر ہم لوگ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ جن بزرگوں کو پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے‘ وہ چشمہ بھی لگاتے ہیں جبکہ کتاب کی لکھائی بڑی رکھنے سے کتاب کی خوبصورتی میں کمی آ جاتی ہے۔ پھر بھی انسان ہونے کی حیثیت سے ہمارے خیالات غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اختلافی صورت میں ہمیں آگاہ ضرور کریں۔

قبل از ایڈیشن چہارم‘ خلیفہ غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک تجویز پیش کی تھی جو مجھے بہت پسند آئی۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل کے نوجوان فارسی گنتی سے ناواقف ہیں۔ اس لیے جہاں فارسی گنتی ہے‘ وہاں ہندی گنتی لکھ دی جائے۔ چوتھے ایڈیشن میں فارسی گنتی کے ساتھ‘ قوسین کے اندر‘ ہندی گنتی بھی لکھ دی گئی ہے۔

علاوہ ازیں‘ ایک دو مقامات پر عبارت پڑھ کر‘ کم از کم مجھ سے‘ وہ معنی اخذ نہیں ہوتا جو اس کا مقصد ہے۔ ایک دفعہ تو شیطان بہکانے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا۔ مثلاً فقر کے مقامات نیچے سے اوپر کی طرف جا رہے تھے جبکہ تیسرے درجہ پر پہلے رسول اللہ ﷺ کے درجہ کا ذکر آ گیا اور بعد میں حضرت محبوبِ ذات کے درجہ کا ذکر آیا اور ان الفاظ کے ساتھ آیا: ’’حبیب کے بعد محبوب کا درجہ ہے‘‘۔ یہ بات میرے لیے پریشانی کا باعث بن گئی کہ حبیب اور محبوب ایک ہی درجہ میں شامل ہیں اور حبیب کے بعد محبوب کا درجہ آتا ہے۔ علاوہ ازیں‘ یہ درجہ محبوب کو تو مل رہا ہے مگر انبیاء کو نہیں مل رہا۔ ہم‘ اس پریشانی سے باہر ایک قرآن کی آیت اور ایک حدیث کی مدد سے نکلے۔ پہلے تو وہ حدیث یاد آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے علمائے فقہ‘ بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہیں۔ اگر ایک عام عالمِ فقہ کا یہ حال ہے تو اولیاء کا کیا مقام ہو گا اور پھر اُن میں محبوبین کا کیا مقام ہو گا جن میں بارہ امام‘ غوث الاعظم اور محبوبِ الٰہی بھی آ جاتے ہیں۔ دوسری بات قرآنِ کریم کی اُس آیت سے سمجھ آ گئی جس میں اولو العزم نبیوں سے میثاق کا ذکر ہے۔ اُس میں صرف رسول اللہ ﷺ کا ذکر پہلے لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ترتیب ِ فضیلت سے کام لیا اور اُس کے بعد دیگر چاروں نبیوں کے نام ترتیب ِ بعثت کے مطابق لیے۔ اسی طرح اس کتاب میں بھی جب مصنف کا قلم تیسرے درجۂ فقر پر پہنچا تو پہلے حبیب کا تذکرہ آیا اور بعد میں محبوب کا تذکرہ آیا۔ اسی مناسبت سے وہاں جو لفظ ’’بعد‘‘ استعمال ہوا ہے‘ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے حبیب کے بعد محبوب کا درجہ ہے۔ اسی لیے وہاں بعد کے ساتھ قوسین میں ’’نیچے‘‘ لکھ دیا گیا ہے تاکہ یہ نکتہ واضح رہے۔

اسی طرح ایک منقبت (کھینچی ہے خالق نے کیا تصویر میرے پیر کی) دیکھنے میں یوں لگتی ہے کہ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے اپنے پیر حضرت سیّد فتح علی شہباز صاحب کے لیے لکھی جس طرح باقی دو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے لکھیں۔ مگر یہ منقبت حضرت محبوبِ ذات نے ظاہری بیعت سے پہلے لکھی۔ اس کی وضاحت نیچے نوٹ میں درج کر دی گئی ہے۔

چوتھے ایڈیشن کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں جگہ کو بچانے کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے تاکہ کاغذ کا فضول استعمال نہ ہو اور اگر ہم ماحول کو بہتر نہیں بنا سکتے تو کم از کم اسے بد تر بنانے میں تاخیر سے کام لیں۔ اگر سرکارِ عالی رضی اللہ عنہ کا تمام کلام پرانے ایڈیشن میں‘ اُسی ڈیزائن میں‘ شامل کیا جاتا تو شاید وہ نئے ایڈیشن سے کئی زیادہ صفحات لیتا۔

چوتھا ایڈیشن ایک نیا اور خوبصورت ایڈیشن تھا مگر ابھی بھی ہمارے مطابق نہ تھا۔ اس میں دو حصوں میں دو طرح کی اغلاط ابھی بھی موجود تھیں۔ جو حصہ ہم اس سال سے پہلے لکھ چکے تھے‘ اس میں وہی اغلاط موجود تھیں جو پرانے ایڈیشن میں موجود تھیں اور ان میں سے بیشتر چوتھے ایڈیشن میں بھی آ گئیں۔ دوسرا حصہ‘ جو بعد میں لکھا، اس میں الفاظ کی اغلاط موجود تھیں جو پہلے ایڈیشن میں نہ تھیں کیونکہ اس پر نظرِ ثانی بھی ’’ثانی‘‘ کے لغوی معنوں میں ہی ہوئی تھی یعنی دوسری دفعہ سے زیادہ نہ ہوئی اور نہ ہی ہماری نظروں کو یہ موقع نصیب ہو سکا۔ پانچویں ایڈیشن میں‘ ہم نے وہ اغلاط نکالنے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔

اس کے باوجود ہم دو باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔ ایک تو یہ کہ غلطی انسان کی فطرت ہے اور انسان اتنا باریک بین نہیں کہ ہر غلطی کو پکڑ سکے۔ دوسری یہ کہ ہر انسان‘ ہر وقت‘ ہر پہلو پر غور نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہماری آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ اگر کوئی غلطی ہماری نگاہ سے بچ گئی ہو اور آپ لوگوں کو نظر آ جائے تو خدارا اُسے کتاب کی زینت ہی نہ بنے رہنے دیں۔ یہی سمجھ کر ہمیں اطلاع دے دیجئے گا کہ ہم بھی آپ کے بھائی ہیں اور بھائیوں کی غلطیوں کو درست کرنا بھی ایمان ہے‘ ہم ان غلطیوں کو ضرور درست کریں گے۔

آخری مسئلہ جو چوتھے ایڈیشن میں قارئین کرام کو پیش آیا ہو گا، وہ چند آیات کو پڑھنے میں دشواری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظ ٹوٹ گئے ہیں۔ حرف کا لفظ سے جدا ہونے اور الفاظ کے ٹوٹنے میں فرق ہے۔ الحمد للہ‘ پانچویں ایڈیشن میں اس مسئلہ کو بھی دور کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ یہاں میں قارئین کرام سے گذارش کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی کو یہ دشواری پیش آ رہی ہے تو وہ چوتھا ایڈیشن واپس کر کے‘ اس کے بدلے میں پانچواں ایڈیشن حاصل کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں‘ کتاب کے شروع میں مضامین کی فہرست بھی بنا دی گئی ہے۔

آخر میں پھر سے قارئین کرام سے گذارش کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا پہلو جو کتاب کی خوبصورتی میں یقیناً اضافہ کر سکتا ہو اور ہمارے ذہن میں نہ آیا ہو‘ بلا تکلف ہمیں بتائیں تاکہ آپ لوگوں کے مشوروں سے کتاب کو بہتر بنایا جا سکے۔ مصنف کتابِ ہذا، دربارِ عالیہ‘ اس کے مشائخ عظام اور اس کتاب پر محنت کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک عمل یا نیک ہستی کے صدقے میرے گناہ معاف فرمائیں۔

گناہ گار و سگ ِ دربار

سیّد شاہ رُخ کمال عفی عنہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے