جمعہ، 20 جولائی، 2012

عجز و انکساری–ملفوظاتِ محبوبِ ذات

عجز و انکساری

آپ عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے۔ آپ کے کلام میں عاجزی اور انکساری ہمیشہ نمایاں ہوتی تھی۔ اس لئے آپ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنا تخلص عاجز رکھا تھا۔ آپ اکثر فرماتے عجز اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ کسی کی زبان سے آپ اپنی تعریف سننا کبھی گوارہ نہ کرتے اور فرماتے تعریف کی سزاوار اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے۔ میری کیا حیثیت؟ میں بے کس و مجبور کہ اپنے جسم پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں اڑا سکتا۔
حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز ’’ محبوبِ ذات‘‘ کے درجے پر فائز ہونے کے باوجود ہمیشہ منکسر المزاج رہے۔ کبھی گھمنڈ نہ کیا، بڑا بول نہ بولا۔ کبھی اپنی تعریف پسند نہ فرمائی۔ کوئی تعریف کرتا تو آپ منع فرماتے۔ جس شخص میں انا موجود ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انسان خود کو پہچانے تاکہ رب العزت کو پہچان سکے۔ آپ ہمیشہ حدیث ِ قدسی کے حوالے سے تلقین فرماتے۔
الحدیث    من عرف نفسه فقد عرف ربه
ترجمہ۔ جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ آپ فرماتے اللہ کی تعریف کرو جو سب تعریفوں کا مالک ہے۔ آپ غریبوں، یتیموں اور مسکینوں سے بے حد پیار کرتے ان کی ظاہری و باطنی ہر طرح سے امداد فرماتے۔ ہمیشہ زمین پر مسند لگا کر بیٹھتے۔ آپ کے عجز و انکسار کا اظہار شاعرانہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے