جمعرات، 14 مارچ، 2013

نفس اور روح کی تفسیر – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی جسم میں اپنے مقام کے ساتھ ساتھ نفس اور روح کو بھی داخل فرمایا۔ نفس کو موت ہے۔كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ﴿سورة آل عمرآن، آية 185، سورة الانبياء، آية 35. سورة العنکبوت، آية 57﴾۔ روح نور ہے جس کو موت نہیں۔ روزِ محشر اسی کا حساب ہو گا اور یہی جنت یا نعوذ باللہ دوزخ میں داخل کی جائے گی۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے تمام خطاب روح کو کئے ہیں اور اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ﴿سورة الاعراف، آية ١٧٢﴾ پر روح نے ہی   بَلٰى ﴿سورة الاعراف، آية ١٧٢﴾ کہہ کر اقرار کیا تھا۔ اس لئے اس کا امتحان ہے۔

نفس کی غذا

عیش و عشرت‘ جاہ و حشمت‘ لوازمات‘ لذیذ کھانے‘ آرام و آسائش‘ خودستائی‘ دروغ گوئی‘ حرص و ہوا، تکبر‘ غرور‘ گھمنڈ‘ نخوت‘ لالچ وغیرہ۔

نفس سے جہاد کرتے رہو۔ حدیث شریف کے مطابق جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹنے کا مطلب مجاہدۂ نفس ہے‘ اس لئے کہ نفس ہمیشہ اور مستقل طور پر طالب ِ لذت و شہوت رہ کر غرقِ معصیت (گناہ) رہتا ہے۔

القرآن        وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ      ﴿سورة الحجر، آية ۹۹﴾

ترجمہ۔ رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں یقین آ جائے (نہایت درجہ حاصل ہو)۔

 

روح کی غذا

ذکرِ الٰہی جس میں عبادت‘ زہد و تقویٰ‘ پرہیزگاری‘ صفائی‘ راست گوئی‘ حق شناسی‘ بصیرت‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی‘ اخوت‘ مروت‘ خوش اخلاقی‘ صبر و تحمل‘ بڑوں اور بزرگوں کی محبت اور ادب وغیرہ شامل ہیں۔

پس اے بندے! اگر تو سرخرو ہونے کی تمنا رکھتا ہے تو نفس کی مخالفت کر اور ذکر ِ الٰہی میں والہانہ حد تک مصروف رہ تاکہ تیری روح لطیف ہو کر اجاگر ہو اور نفس مغلوب ہو جائے اور تجھے فلاحِ دارین اور قربِ الٰہی نصیب ہو۔

فرمانِ عالی ہے کہ ہوا و ہوس کی اتباع اور خواہشات کی کثرت گمراہی اور انسان کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ فرمایا کہ انسان کی ہوس اسے گمراہ کرنے کے لئے ہر روز سینکڑوں قسم کے روپ بدلتی ہے اور بندے کو راہِ راست سے ہٹا کر نفس کی غلامی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ در حقیقت انسان کا بد ترین دشمن انسان کا اپنا نفس ہے۔ پس جو شخص خدا کے وصل سے مشرف ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ نفس اور ہوس کا اتباع نہ کرے۔ واصل باللہ ہونے کا سب سے بہتر طریقہ ممکن نہیں۔ حدیث قدسی ہے کہ من عرف نفسه بالفنا فقد عرف ربه بالبقا۔

حضور سرکار عالی قدس سرہٗ العزیز کی عجز و انکساری اور کائنات کی ہر شے سے بے نیازی کو اللہ تعالیٰ نے پسندیدگی کی نگاہ سے پذیرائی فرمائی اور آپ کو محبوبیت کے درجہ سے سرفراز فرمایا۔

 

فرمان عالی    اللہ تعالیٰ کو تکبر ناپسند ہے۔


اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْـتَكْبِرِيْنَ ؀    ﴿پاره، ۱۴ سورة النحل، آية ۲۳﴾
ترجمہ۔ بے شک اللہ تعالیٰ مغروروں کو پسند نہیں کرتا۔

 

نیز آپ نے وعظ میں فرمایا۔ ضبط و تحمل پیدا کرو‘ غصہ نہ کرو‘ غیبت نہ کرو‘ جھوٹ سے اجتناب کرو۔ فرمایا دس چیزیں اپنے مدِّ مقابل دس چیزوں کو کھا جاتی ہے۔

(۱)    توبہ    گناہوں کو

(۲)    جھوٹ    رزق کو

(۳)    غیبت    عمل کو

(۴)    غم    عمر کو

(۵)    صدقہ    بلاؤں کو

(۶)    غصہ    عقل کو

(۷)    پشیمانی    سخاوت کو

(۸)    نیکی    بدی کو

(۹)    تکبر    علم کو

(۱۰)    ظلم    عدل کو

تکبر‘ حسد‘ بخل‘ غصہ‘ کینہ و کدورت‘ کذب و افترا، غیبت‘ لہو و لعب و بددیانتی‘ رعونت‘ انتقامی جذبہ‘ سب نفس کے عیوب ہیں جن کو مجاہدہ اور ریاضت سے رفع کیا جا سکتا ہے۔ نفس کے خلاف جہاد تمام عبادتوں کا سرچشمہ ہے۔ عبادات سے مخالفت ِ نفس مراد ہے۔ نفس کے برے رحجانات کی مخالفت کرو۔ سچا مجاہد وہ ہے جس نے راہِ خدا میں نفس سے جہاد کیا۔ مجاہدہ کے بغیر مشاہدہ ممکن نہیں۔


حدیث ِ نبوی:۔ تمام دشمنوں سے بد ترین دشمن تیرا اپنا نفس ہے۔ اپنے نفس کی اتباع سے فارغ اور آزادہو کر اپنی تمام تر توجہ اور محبت خالقِ حقیقی پر مرتکز اور اس کی ذات اور صفات میں محو رکھو۔ یہی توحید ہے۔ جو نفس کی پیروی کرے گا، وہ خدا سے دور رہے گا۔



الحدیث:    من کان للہ کان اللہ لہ    (باب: اعجاز الصالحین)
ترجمہ۔ جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے۔


خدا نے عبادت کا حکم دیا ہے‘ اس سے نفس کشی مراد ہے۔ ہر عبادت نفس کو ملیا میٹ کر دیتی ہے اور نادم مرگ نفس کا تقاضا اس کے برعکس رہتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے