جمعہ، 29 مارچ، 2013

شکر و نعمت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

(1)    مصیبتیں ایذا پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ بیدار کرنے کے لئے آتی ہیں۔

(2)    درویشی یہ ہے کہ کسی چیز کا طمع نہ کرے‘ جب بے طلب کوئی لائے تو منع نہ کرے اور جب لے لے تو جمع نہ کرے۔

(3)    مصائب کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر سے کرو۔

ارشادِخداوندی:

اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ       ﴿سورة البقرة، آيت 153﴾

ترجمہ۔ شکر کرو گے تو میں اپنی نعمتوں میں اضافہ کرتا جاؤں گا۔

(4)    نیکی جو بھی کر سکتے ہو‘ جن ذرائع سے بھی‘ جہاں سے بھی‘ جب بھی‘ جس کے ساتھ بھی‘ جب تک کر سکتا ہو‘ کیے جاؤ۔

(5)    خورد و نوش کی لت ہے تو تم حیوان ہو‘ بناؤ سنگھار کی دھت ہے تو تم عورت ہو‘ لہو و لعب کا شوق ہے تو تم بچے ہو‘ اگر پڑے رہنے کی عادت ہے تو تم بے جان ہو‘ اگر محنت کی عادت ہے تو حقیقی انسان ہو۔

(6)    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ علم دولت ہے‘ دولت فرعون اور قارون کو ملتی ہے، علم پیغمبروں کو ملتا ہے۔

(7)    عزت‘ شب کی عبادت میں ہے‘ سلاطین کے دروازوں پر نہیں۔ بلندی‘ تواضع و انکساری میں ہے‘ تکبر میں نہیں۔ قبولیت‘ لقمۂ حلال میں ہے‘ حرام میں نہیں۔ تونگری‘ قناعت ِ نفس میں ہے‘ حرص میں نہیں۔

(8)    دل کی اصلاح کے لئے پانچ دوائیں:

(۱)     صحبتِ صالحین

(۲)     قرآن پاک کا وِرد

(۳)     پیٹ خالی رکھنا

(۴)     نمازِ تہجد

(۵) آخرِ شب کی آہ و زاری۔

آپ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا۔

سوال: کیا کوئی نبی یا ولی مردہ چیزوں کو زندہ کر سکتا ہے؟

جواب: نبی یا ولی، اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے‘ سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے‘ البتہ اللہ نبی یا ولی کے ہاتھ اور زبان سے ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت میں فعل اللہ کا ہوتا ہے کیونکہ وہ لا شریک ہے۔ معجزہ اور کرامت اللہ کا فعل ہے‘ سرزد نبی یا ولی کے ہاتھ سے ہوتا ہے کیونکہ اللہ کا اپنا وجود کوئی نہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے