پیر، 8 اپریل، 2013

قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ از روئے قرآن نور ہیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ از روئے قرآن نور ہیں

قرآنِ پاک کی رو سے قرآنِ مجید اور سرکارِ دو عالم‘ امام الانبیاء‘ خاتم النبیّن‘ احمد مجتبٰے محمد مصطفٰے ﷺ نور ہیں۔ دونوں ابد تک رہیں گے‘ ہمیشہ سے ہیں‘ ہمیشہ ہی رہیں گے۔ قرآن اور شریعت تا ابد رہیں گے۔ قیامت تک آئندہ نہ کوئی الہامی کتاب آئے گی اور نہ ہی کوئی نبی آئے گا، نہ ہی کوئی دوسری شریعت آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی حفاظت کا خود وعدہ فرمایا ہے اور جنابِ رسالت مآب ﷺ کی حدیث ِ پاک ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔

آپ ﷺ کا نور از روئے قرآن‘ ازل سے ابد تک رہے گا۔ حضرت عریاض بن ساریہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا كنت نبيا آدم بين الـمآء والطين. رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس وقت سے خاتم النبیّن لکھا جاتا ہوں جب آدم علیہ السلام اپنی گوندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے یعنی ابھی آدم کا پتلا تیار نہ ہوا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ نورِ مقدس از روئے قرآن‘ ازل سے ابد تک‘ شاہد کی شان میں ہمیشہ رہے گا۔ خدا رب العالمین ہے۔ سب جہانوں کا پالنے والا۔ رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔ تمام عالمین کے لئے رحمت۔

القرآن        اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ    ﴿سورة القصص، آية 30﴾

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ   ﴿سورة الانبيآء، آية 107﴾

اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ دونوں موجود ہیں مگر ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہیں کیونکہ عوام کو مشاہدہ نصیب نہیں یعنی چشمِ دل (بصیرت) جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بے نقاب دیکھا جا سکے۔ انبیاء ؊  و اولیاء عظام کو یہ قدرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ دونوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ہر وقت ماضی، حال اور مستقبل کا علم ہوتا ہے۔ دونوں کی شان رؤف الرحیم ہے‘ قرآن خود شاہد ہے۔

اب قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺ کے نور ہونے کی تفصیل ملاحظہ کریں۔


 

قرآنِ مجید نور ہے

 

ارشادِ خداوندی:۔            ﴿پاره ۳، سورة آل عمران، آية ۳﴾

نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ

ترجمہ۔ نازل فرمائی اس نے آپ ﷺ پر یہ کتاب حق کے ساتھ تصدیق کرنے والی ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اتاری اس نے تورات اور انجیل۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ     ﴿پاره ٦، سورة الـمآئده، آية ۴۸﴾

ترجمہ:۔ اور اے حبیب ﷺ اتاری ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب سچائی کے ساتھ تصدیق کرنے والی ہے اس سے پہلے آسمانی کتابوں کی۔ یہ کتاب (قرآن) محافظ ہے اس پر۔

وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَهُدًى وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ  ﴿پاره ۶ سورة الـمآئده، آية ۴۶﴾

ترجمہ۔ اور ہم نے دی اسے انجیل اس میں ہدایت اور نور تھا۔ اور تصدیق کرنے والی تھی جو اس سے پہلے تھا یعنی تورات اور یہ (انجیل) ہدایت اور نصیحت تھیں پرہیزگاروں کے لئے۔

وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ    ﴿پاره ۲۵، سورة الـمآئده، آية ۵۲﴾

ترجمہ۔ اور کیا، ہم نے کتاب (قرآن) کو نورِ ہدایت کرتے ہیں‘ ساتھ اس کے‘ یعنی ہدایت اور نور دونوں کا مجموعہ قرآن ہے۔


مذکورہ بالا آیاتِ مقدسہ میں اللہ رب العزت قرآنِ مجید کو "الکتاب" کہہ کر بیان فرما رہے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ قرآنِ مجید اور دیگر مقدس کتب (پہلی کتابوں) کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ کتابیں نور ہیں اور ہدایت بھی۔ انجیلِ مقدس کے بارے میں بھی ارشادِ ربّانی ہے کہ وہ نور ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نور ہیں

 

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ  ﴿پاره ٦، سورة الـمآئده، آية ۱۵﴾

ترجمہ۔ تحقیق آیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور (رسول اللہ ﷺ) اور روشن کتاب (قرآن) یعنی بیان کرنے والی ہے ہدایت اور نور کو۔

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا  ﴿پاره ٦، سورة الـنسآء، آية ۱۷۴

ترجمہ۔ اے لوگو! (ساری انسانیت) تحقیق آئی تمہارے پاس دلیل (رسول اللہ ﷺ) پروردگار تمہارے سے اور اتارا ہم نے طرف تمہارے کھلا نور (قرآن)۔

مندرجہ بالا دو آیات ہیں جن کو حرف ’و‘ سے ملایا گیا ہے۔ ’و‘ حرفِ عطف ہے یعنی دو جملوں کو ملانے والا۔ حرف ’و‘ نے اوپر دو آیات کو ملایا مگر دونوں آیات الگ الگ ہیں اور ان کا مفہوم یعنی معانی بھی الگ الگ ہیں جیسا کہ اوپر آیت ِ مذکورہ

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ   (پاره ٦، سورة الـمآئده، آية ۱۵) میں نور اور کتاب کو حرف ’و‘ سے ملایا گیا ہے۔ نور‘ رسالت مآب ﷺ اور کتاب‘ قرآن مجید ہے۔ لہٰذا دونوں نور ہیں۔

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا    ﴿سورة الـتغابن، آية ٨﴾

ترجمہ۔ پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے اتارا (یعنی قرآن)۔
ظاہر ہے کہ کتاب (جو نور ہے) کے علاوہ دوسرا ظاہر نور جناب رسالت مآب ﷺ کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟ جن کے نور ہونے کے ثبوت میں مزید آیاتِ قرآنی قارئین کے یقین محکم کے لئے درج کرتا ہوں جو عالی سرکار ؄ فرمایا کرتے تھے۔

(i)         اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ  ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ   ﴿پاره ۴، سورة آل عمران، آية ۱۶۴﴾

(ii)    يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ؀  وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا  ﴿پاره ۲۲، سورة الاحزاب، آيات ۴۵-۴۶﴾

(iii)    وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا  ﴿سورة الـنسآء، آية ۸۰﴾

(iv)    فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا  ﴿پاره ۲۵، سورة الـشورٰی،آية ۴۸﴾

(v)     وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ؁   ﴿سورة الانبيآء، آية ۱۰۷﴾

(vi)    وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۝ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۝  ﴿پاره ۲۷، سورة النجم، آيات ۳۔۴﴾

(vii)    اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا  ﴿پاره ۲۲، سورة الاحزاب ، آية ۵۶﴾

(viii)     وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا  ﴿پاره ۲۲، سورة الاحزاب ، آية ۳۶﴾

(ix)    اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ﴿پاره ۲۲، سورة الاحزاب ، آية ۵۷﴾

آقائے نامدار رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ میری شریعت تاقیامت جاری و ساری رہے گی۔ قرآنِ مجید آخری کتاب ہے۔ اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے بعد امت کی رہنمائی اور رشد و ہدایت کون کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’میری امت کے اولیاء عظام یہ فرائض میری طرف سے سرانجام دیں گے‘‘۔  نیز فرمایا میری امت کے اولیاء بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام سے افضل ہوں گے کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنیٰ یعنی معرفت ِ حقیقی کے علم سے نوازا ہو گا۔ انبیاء علیہم السلام کو صرف علمِ شریعت دیا گیا تھا۔ (سورۃ کہف میں آیات ۷۰ تا ۸۲) حضرت خضر ؈ اور حضرت موسیٰ ؈ کے تفصیلی تذکرے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت خضر ؈ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنیٰ سے نوازا تھا جبکہ حضرت موسیٰ ؈ کو یہ علم عطا نہ ہوا تھا۔ علمِ لدنیٰ کے بارے میں قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ (القرآن)

وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ    (سورة آل عمرآن، آیت ۷)

ترجمہ۔ اور اس کی تاویل تو اللہ ہی کو معلوم ہے اور راسخِ علم کو یعنی معرفت کے علم والے کو جو اس علم کا منبع ہو۔

قرآن پاک اور احادیث میں اولیاء کرام اور اس کے مقبول بندوں کا بیان؛ سورۃ الحمد شریف میں، انعام یافتہ لوگوں کو کہا گیاہے۔

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ   (سورۃ یونس‘ آیۃ ۶۲)

يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ؀ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ؀ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ؀ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ (سورۃ الفجر، آیۃ 27-30)

حضرت مریم علیہا السلام کو غیب سے پھل اور میوے ملتے تھے۔ آصف برخیا (جو ولی اللہ تھے) نے ملکہ بلقیس کا تخت ہزاروں میل کے فاصلہ سے چشم زدن میں حضرت سلیمان؈ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔ (سورۃ نمل)

سورۃ کہف میں حضرت خضر ؈ اور حضرت موسیٰ ؈ کا تفصیلی تذکرہ آیا ہے جس سے حضرت خضر ؈ کو باطنی علم یعنی علمِ لدنیٰ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک میں مختلف سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے شہداء‘ اولیاء عظام‘ صالحین‘ صدیقین اور ابرار کا ذکر فرمایا ہے۔ عشرہ مبشرہ‘ دس صحابی جن کو اللہ تعالیٰ نے جنتی ہونے کے انعام سے سرفراز فرمایا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے