پیر، 15 اپریل، 2013

یقینِ محکم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

یقینِ محکم کے لئے ایک چرواہے کی مثال بیان فرمائی۔ اس چرواہے کو جنگل میں پیاس کی شدت نے تنگ کیا۔ اس نے ایک کنویں میں پانی دیکھنے کے لئے جھانکا تو دیکھا کہ ایک مرد اُلٹا لٹک رہا ہے۔ چرواہے نے اُلٹا لٹکنے کا سبب دریافت کیا تو مرد نے جواباً کہا کہ اس نے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا ہے۔ چرواہے کو یقین ہو گیا کہ یہ بہت آسان طریقہ ہے‘ پہلے یہی عمل کر لوں‘ پانی بعد میں پی لوں گا۔ پاس ہی بیری کا درخت تھا اس پر آکاس بیل چھائی ہوئی تھی۔ وہ بیری پر چڑھ کر آکاس بیل اتارنے میں لہو لہان ہو گیا کیونکہ بیری کے درخت میں کانٹے نوک دار ہوتے ہیں۔ اس نے رب کو حاصل کرنے کے لئے زخموں پر کوئی دھیان نہ دیا۔ آکاس بیل کچی ہوتی ہے‘ پھر بھی وہ اس سے رسا بنا کر اس درخت پر چڑھ گیا۔ آکاس بیل کے رسے کا ایک سرا درخت کے ٹہنے کے ساتھ باندھا اور دوسرا سرا اپنی ٹانگوں سے باندھ کر نیچے لٹک گیا۔ رسے میں کوئی جان نہ تھی مگر لٹکنے والا کامل یقین کا حامل تھا۔ وہ خدا کا قرب چاہتا تھا۔ بیل کا رسا ٹوٹ گیا۔ وہ گرا لیکن بیشتر اس کے کہ اس کا سر زمین سے ٹکراتا، اللہ تعالیٰ نے باطن کھول دیا۔ یہ یقینِ محکم ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے