جمعہ، 12 اپریل، 2013

مقاماتِ مقدسہ کی فضیلت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

مقاماتِ مقدسہ‘ درباروں‘ خانقاہوں اور مزارات پر دعا کی مقبولیت‘ بہ نسبت عام جگہوں کے‘ جلد ہوتی ہے۔

(القرآن)     وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ         ﴿پاره ۱، سورة البقرة ، آية ۵۸﴾

ترجمہ۔ (بنی اسرائیل کو حکم ہوا) کہ وہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور کہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوں‘ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے۔ وہ دروازہ مقدس تھا اس لئے قبولیت ِ دعا کے لئے فائدہ مند تھا۔

يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ      ﴿سورة المآئده ، آية ۲۱﴾

ترجمہ۔ (بنی اسرائیل) اے قوم! اس پاک سر زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھی ہے۔ اس زمین کو اس لئے مقدس کہا گیا کہ وہ انبیاء ؊ کا مسکن تھی۔ انبیاء ؊ کی سکونت سے زمینوں کو جو شرف حاصل ہوتا ہے وہ دوسروں کے لئے باعث ِ برکت ہے۔ اس نسبت سے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی قسم کھائی جہاں جناب رسالت مآب ﷺ کے قدم مبارک لگے تھے اور وہ آپ ﷺ کا مسکن تھا۔

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ ۝ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ ۝ وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ ۝

منقول ہے کہ حضرت ابراہیم ؈ کوہِ نسان پر چڑھے تو کہا گیا کہ جہاں تک آپ ؈ کی نظر پہنچے وہ جگہ مقدس ہے۔ یہ سر زمین کوہِ طور تھی۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا            ؀    (سورۃ النساء‘ آیت 64)

ترجمہ۔ اور ہم نے کوئی نبی نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (معصیت اور نافرمانی کر کے) تو اے محبوبؐ!  تیرے حضور حاضر (جَاۗءُوْكَ ) ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول اللہ ﷺ ان کی شفاعت فرما دیں تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی شفاعت قبول ہوتی ہے۔

آیاتِ قرآنی کا مفہوم و مطلب بیان کرتے ہوئے حضور عالی سرکار قدس سرہٗ العزیز بڑے محتاط ہوتے تھے۔ سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ترجمہ بیان فرماتے۔ حضرت موسیٰ ؈ کو کوہِ طور پر حکم ہوا کہ جوتے اتار دو اور دو رکعت نفل ادا کرو۔ یہ وادیٔ طور ہے‘ آگ نہیں۔ یہ سر زمین مقدس ہے۔ ہم نے آپ ؈ کو نبی مبعوث کیا۔

ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم‘ آقائے نامدار‘ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا گزر ایک بستی سے ہوا۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! یہاں مرض (کوڑھ) کی وبا پھیل گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مدینہ منورہ کی مٹی شفا ہے۔ سب مریض اپنے جسم پر مٹی مل لیں‘ شفا ہو جائے گی۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور سب لوگ شفایاب ہو گئے۔

پس معلوم ہوا کہ جس جگہ پر اللہ کے برگزیدہ بندوں کا قیام ہو یا گزر ہو‘ وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے اور وہاں کی ہر شے باعث ِ برکت اور شفا بخش ہو جاتی ہے۔ اس لئے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے قدموں کے طفیل دربار شریف کی مٹی اور پانی‘ دونوں‘ ہر مرض کے لئے شفا ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے