جمعرات، 28 فروری، 2013

صدقات کے احکامات (من القرآن)

ارشادِ خداوندی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ    ﴿پارہ ۳، سورة البقرة٫ آية ۲۶۴

ترجمہ۔ اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کیا کرو۔

اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا يُّضٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ اَجْرٌ كَرِيْمٌ           ؀  ﴿پارہ ۲۷، سورة الحديد٫ آية ۱۸

ترجمہ۔ بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا، ان کے دوگنے (ملنے) ہیں۔

رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ؀

﴿پارہ ۲۸، سورة المنافقون٫ آية ١٠

ترجمہ۔ اے رب میرے! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا؟
صدقے سے مراد مالِ حلال میں خوش دلی سے راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے۔ قرضِ حسنہ سے مراد راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے۔

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ  ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ؀        ﴿پارہ ۱۰، سورة التوبة٫ آية ۶۰

ترجمہ۔ صدقات تو دراصل یتیموں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات وصول کرنے پر معمور ہوں اور ان کے لئے جن کی دلجوئی منظور ہو اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امداد میں استعمال کرنے کے لئے۔ پس یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے۔ اللہ علیم و حکیم ہے۔

جمعہ، 22 فروری، 2013

مصائب و آلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

ارشادِ خداوندی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ  ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ
(سورة البقرہ، آيت ۱۵۳)

ترجمہ۔ اے ایمان والو نماز اور صبر سے مدد لو‘بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

تشریح:۔    نعمتوں پر شکر اور مصائب میں صبر اور نماز سے مدد لو۔ اگر کوئی شے بطورِ نعمت ہے تو شکر بجا لاؤ‘ اگر بطورِ مصیبت ہے تو صبر اختیار کرو۔ صبر و استقامت سے قضا و قدر کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دو۔ مصائب سے درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ اپنے سے غائب ہونا، گم ہونا، وجود کو فراموش کر دینا، حق کی حضوری ہے۔ اپنی صفت کو ثابت و قائم کرنے کا نام بشریت ہے۔ ماسوائے اللہ کی ذات کے تمام چیزوں سے دل کو آزاد و فارغ رکھنے کا نام فقر ہے اور فقر مصیبتوں کا دریا ہے جس میں غوطہ زن ہونے کے بعد فقر ’’فخر‘‘ بن جاتا ہے۔

جمعرات، 21 فروری، 2013

تواضع – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تواضع

تواضع رحمت ِ خداوندی کا ایسا دروازہ ہے جو تکبر اور غرور کو کاٹنے والا ہے۔ بغض اور تکبر کو ہر حال میں اپنے نفس سے باہر نکال پھینکو۔ توحید یہ ہے کہ مردِ مواحد (توحید پرست) جمالِ احدیت کو چشمِ دل سے بے نقاب دیکھے۔ مشاہدہ سے مراد ذاتِ الٰہی کا چشمِ دل سے دیکھنا ہے۔ محبوب کی ملاقات کے لئے دل کا شوق و اضطراب محبت ہے۔ جس طرح جسم کا قیام روح سے ہے‘ اسی طرح حب کا قیام محبوب کے دیدار اور وصل سے ہے۔ محبت کے معنی ہیں "دوستی میں صفائی اور اخلاص۔" بندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت اس کا رحم و کرم و بخشش ہے۔ بندے کی محبت ذات و صفاتِ خداوندی میں محویت و استغراق ہے۔ محبت ایک ازلی صفت ہے۔ اکتسابِ فیض تبھی ہو سکتا ہے جب انسان معاف کرنے کی خو ڈالے‘ در گذر کرنے والا بن جائے‘ انتقامی جذبہ نہ رکھے۔

سب سے پھلے کائنات کی تخلیق کے لئے اللہ تعالٰی کو عشق ہوا تھا یعنی ابتدائے عشق ذاتِ باری تعالٰی نے کی اور انتہائے عشق حضرت امام حسین علیہ السلام نے کی۔ ازل میں ذات اپنے حسن و انوار پر خود ہی عاشق ہوئی پھر زمانے میں عشق پھیل گیا۔

جمعہ، 7 دسمبر، 2012

توحید – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

باب چہارم  (4)
توحید اور فقر

 

توحید

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ حضور پاک روازنہ شب و روز مریدین کی رہنمائی‘ پختگی ٔ ایمان‘ تعلیم و تربیت اور ان کے جذبۂ عشق و محبت میں اضافہ کے لئے جو ہدایات فرماتے‘ حاصل عرفان ہوتیں۔ آپ سرکار  مریدین کو شریعت کے قوانین اور اسلامی معاشی اور تمدنی طریقوں سے آگاہ فرماتے۔ دین کے پہلو پر وضاحت سے روشنی ڈالتے کہ مریدوں کے دل تبلیغ حق سے پر نور ہو جاتے۔

 

وحدۃ الوجود

حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے خطبات اور مواعظ کا نکتۂ خاص مبنی بر توحید ہوتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ پیار تھا۔ ہمہ وقت ذاتِ اقدس کے تصور سے سرشار رہتے۔ وَحدۃ الوجود نظریہ کے قائل تھے۔ نظریۂ وحدۃ الوجود یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے‘ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے یعنی ہر سو اللہ ہی اللہ ہے اور تصوف میں اسے ہمہ اوست بھی کہتے ہیں۔ احدیت‘ وحدیت اور کثرت اس کی اشکال ہیں۔ یہ بھی فرماتے کہ کل کائنات مظہر ذات الٰہی ہے یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ گویا توحید کی اصل حقیقت نظریۂ وحدۃ الوجود ہے۔ قرآن میں هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ  (سورة الحديد، آية ۳) سے وحدۃ الوجود کی تصدیق ہوتی ہے۔ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (سورة النور، آية ۳۵) سے بھی وحدۃ الوجود کی تائید ہوتی ہے۔ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے شعری کلام سے بھی اسی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز فرماتے توحید یہ ہے کہ کثرت سمٹ جائے اور وحدت پھیل جائے۔ قرآنی آیاتِ مندرجہ ذیل اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

جمعہ، 23 نومبر، 2012

معمولات اور طریقہ بیعت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

 

اگر کوئی شخص مرید ہونے کی خواہش ظاہر کرتا تو پہلے آپ اس کے دل کی توجہ خاص سے بارگاہِ ایزدی میں پیش کر کے منزہ کرتے‘ جس کے نتیجہ میں دل منور اور ذاکر ہو جاتا۔ دل واصل باللہ ہو جاتا۔ جب وہ شخص ان نوازشات کا حامل ہو کر اس کی تصدیق کرتا تو آپ اس کو بیعت فرماتے اور اس کے سابقہ گناہوں کی معافی کے لئے ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا فرماتے۔
آپ پنج گانہ نماز کی ادائیگی ہمیشہ پابندی سے فرماتے۔ نمازِ مغرب کی جماعت خود کرواتے۔ مریدین کے علاوہ اُمت ِ مسلمہ کے لئے خصوصی دعا فرماتے۔ اس کے بعد آپؒ اپنے وظائف پڑھنے میں مصروف ہو جاتے‘ جو نیم شب تک جاری رہتے۔ وظائف سے فراغت پا کر آپؒ مریدین کی مجلس میں تشریف لے آتے اور رات کا باقی حصہ رشد و ہدایت اور راہنمائی میں صرف فرماتے۔ مسائل کی عقدہ کشائی فرماتے‘ حاضرین کی مشکلات کے حل کے لئے دعا فرماتے‘ مریدین کی باطنی راہنمائی فرماتے ہوئے ان کو تصوّف و معرفت کے حقائق اور رموز سے آگاہ بھی فرماتے۔ آپ کے خطبات‘ ارشادات اور مواعظ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ آپ قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ کی جو تفسیر بیان فرماتے وہ بہت دقیق اور پراسرار ہوتی‘ علمائے ظاہر اور واعظین سے مختلف ہوتی۔ آپ اکثر فرماتے کہ قرآنِ پاک کے سِرِّی معانی بھی ہیں۔ ان باطنی معنوں کو سمجھے بغیر علمِ قرآن سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ راقم الحروف کو ان اَسرار و رموز کے سمجھنے اور سننے کی سعادت برابر حاصل رہی۔ فجر کی نماز سے پہلے آپ گھر تشریف لے جاتے اور رات کا رکھا ہوا باسی کھانا (تنوری روٹی اور سالن) بڑے شوق سے تناول فرماتے اور اپنے معمول کے وظائف کے بعد ایک گھنٹے کے لئے استراحت فرماتے۔ استراحت کے بعد تازہ وضو فرماتے‘ ایک پیالی چائے نوش فرماتے اور پھر معمولاتِ زندگی میں مصروف ہو جاتے۔ سارا دن فیض رسانی کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی دوران ظہر کے وقت دربار شریف میں آئے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کے لئے فرداً فرداً دعا فرماتے۔

جمعہ، 9 نومبر، 2012

تبلیغ کا انوکھا انداز – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

تبلیغ کا انوکھا انداز

 

راقم الحروف نے تمام زندگی آپ کو چار پائی پر بستر لگا کر سوتے نہیں دیکھا۔ آپ سرکار نے ریاضت‘ عبادت‘ شب بیداری اور صوم و صلوٰۃ میں مثالی نشان قائم کئے۔ بیماری کی حالت میں کبھی دوا استعمال نہیں کی۔ ہمیشہ توکل پر بھروسہ کیا۔ صبح معمولی سا ناشتہ کرنے کے بعد آپ اپنی عبادت گاہ میں تخت پر ایک گھنٹے کے لئے استراحت فرمانے کے بعد اٹھ کر وضو فرماتے۔ چائے کی ایک پیالی نوشِ جاں فرماتے۔ پھر باہر مریدوں کے جھرمٹ میں تشریف لے آتے۔ تمام دن وعظ فرماتے‘ مریدوں کو رشد و ہدایت سے نوازتے‘ اپنی نگاہِ کرم سے ان کی باطنی راہنمائی فرماتے۔ ہر ایک کی التجا سن کر ان کی مراد پوری فرماتے۔ قبل دوپہر عام لوگوں کے لئے دعا فرماتے بلکہ ہر شخص کے لئے فرداً فرداً دعا فرماتے۔ دعا کے بعد جب سائل کی تسلی ہو جاتی تو اس کو جانے کی اجازت مرحمت فرماتے۔ تاکید کرتے کہ نماز پابندی سے ادا کرتے رہنا۔ اگر کوتاہی یا غفلت کرو گے تو تمہاری بیماری تمہیں دوبارہ پکڑ لے گی۔ یہ خوف اس لئے دلاتے کہ دعا کرانے والا شخص پابند ِ صلوٰۃ ہو جائے۔ اس طرح آپ سرکارِ عالی نے لاکھوں بندگانِ خدا کو نماز کا پابند بنا دیا۔ تبلیغ کا یہ انوکھا انداز تھا۔

جمعہ، 2 نومبر، 2012

حضرت سید صوف شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضرت سید صوف شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری

 

لاہور پہنچ کر آپؒ نے حضرت سیّد صوفؒ کے مزار‘ واقع بیرون مسجد وزیر خان‘ میں چلّہ کیا۔ صبح کے وقت آپ سیّد دیدار علی شاہ صاحب‘ خطیب مسجد وزیر خان‘ کے پاس رہتے اور رات ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی اس کی اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ مزار سے زندہ نہیں نکلتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شنید ہے رات کو شیر آتا ہے‘ جس کے خوف سے وہاں موجود شخص جان بحق ہو جاتا ہے۔ حضور سرکارِ عالی نے فرمایا میں یہاں مرنے کے لئے نہیں آیا، زندگی پانے کے لئے آیا ہوں۔ اپنی ذمہ داری پر رات مزار کے اندر ہی قیام کروں گا۔ مجاور دروازہ باہر سے مقفل کر کے چلے گئے۔ اگلی صبح معمول سے قبل ہی دروازہ کھولا تو آپ کو یادِ الٰہی میں مصروف پایا۔ ثابت ہوا کہ ولی کو کوئی خوف یا ملام نہیں ہوتا۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  سرکارِ عالی نے اپنی حیاتِ اقدس میں ریاضت کو انتہا تک پہنچا دیا۔