جمعہ، 3 جنوری، 2014

یہاں بگڑی بنتی ہے، قسمت سنورتی ہے، تقدیر نکھرتی ہے – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

آج ہمارے درمیان‘ ظاہری طور پر‘ یہ ذاکرِ حقیقی موجود نہیں لیکن ان کا ذکر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ان کا مذکور بھی موجود ہے۔ ذکر‘ ذاکر اور مذکور اگر موجود ہے تو یقین جانئے کہ حضرت قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز بھی موجود ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارا وجود اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ لیکن آنکھ والوں اور بصیرت و بصارت والوں کے لیے محبوبِ ذات کی صورت میں موجود ہیں۔

منڈیر سیّداں کی منڈیر سے طائر ِ قلب پرواز کر کے پھر منڈیر سیّداں کی منڈیر پر آ بیٹھا ہے۔ اس لیے کہ یہی مقام ہے جہاں راحت کا مکمل قیام ہے۔ ہم اسی مقام سے باعافیت قائم قیامت تک بصورتِ بخشش رسائی حاصل کر سکتے ہیں‘ کیونکہ یہی وہ بستی ہے جس میں حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کے قدموں کے نشانات محفوظ ہیں۔ یہی وہ بستی ہے جس میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی سانسوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہی وہ بستی ہے جس میں حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی صدائیں بصورت وعظ و خطاب و ارشادات محفوظ ہیں۔

یہی وہ بستی ہے جس میں ان کا وجودِ مسعود محو ِ استراحت ہے۔ یہی وہ بستی ہے جس کے در و دیوار آج بھی قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی یادیں اور باتیں دہراتے ہیں۔ مجھ فقیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس طرح حیاتِ اقدس میں حضور محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی نگاہِ کرم میں رہا، آج بھی ان کا کرم ان کے دربارِ اقدس پر حاضر رہنے کا شرف حاصل کیے ہوئے ہوں۔ مجھ پر یہ شرف کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے فضل و کرم سے اس افضال (سیّد افضال احمد حسین شاہ گیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ‘ سجادہ نشین دربارِ محبوبِ ذات) کو اپنی فضیلتوں کا امین بنا رکھا ہے۔ میں کل بھی قبلہ محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کا خادم تھا اور آج بھی انہی کا خادم ہوں۔ اور جب تک سانس کی ڈوری اجازت دے گی‘ میں اس رشتۂ عقیدت سے پیوست رہوں گا۔ بلکہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد بھی انہی کے قدموں میں پڑا رہوں گا۔ ہمارے لیے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ہم سب محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز کی روحانی پناہ میں ہیں؟

آج بھی دربارِ عالیہ محبوبِ ذات‘ قادریہ‘ احمد حسینیہ‘ منڈیر سیّداں شریف‘ تحصیل و ضلع سیالکوٹ‘ مرجعِ خلائق ہے۔ آج بھی یہاں حاضری دینے والوں کو خدا تعالیٰ بصدقہ محبوبِ حق‘ بتوسطِ محبوبِ ذات‘ تمام نعمتوں سے نوازتا ہے۔ خدا سب کی مرادیں پوری کرتا ہے‘ سب کی تمنائیں بر آتی ہیں‘ اداس چہرے کھل اٹھتے ہیں‘ لوگ ہشاش بشاش گھروں کو لَوٹتے ہیں‘ محرومیوں کے صدموں سے نڈھال لوگ آس امید کا حوصلہ لے کر واپس جاتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے