جمعہ، 23 مئی، 2014

اولیاء کرام سے کرامات کا ظہور – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

جریح جو ایک راہب تھا، اس سے اللہ تعالیٰ نے ایک شیر خوار بچے سے کلام کرا دیا۔ بچے نے بتایا کہ وہ چرواہے کا بیٹا ہے۔

جمعۃ المبارک کے خطبہ کے دوران حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے آواز دی۔ یا ساریۃ! انظر الی الجبل۔ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف دیکھو۔ ہزاروں میل دور یہ آواز ساریہ نے سنی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی نبی یا ولی مردہ چیز کو زندہ کر سکتا ہے؟ نبی یا ولی‘ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے۔ البتہ اللہ جل شانہٗ نبی یا ولی کے ہاتھ اور زبان سے ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت میں فعل اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے کیونکہ فاعلِ حقیقی وہی ہے کیونکہ وہ لا شریک ہے۔ معجزہ اللہ کا فعل ہے۔ کرامت‘ ولی کے ہاتھ اور زبان سے ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا اپنا کوئی وجود نہیں‘ لیکن وہ کسی وجودِ مُنزّہ سے ظاہر ہو سکتا ہے۔

اسرار و رموز کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ عام آدمی اس کی سیر نہیں کر سکتا۔ ظاہر و باطن کے نظاروں کی حقیقت اُس پر منکشف ہوتی ہے جس کا سینہ مرشد ِ پاک کی نگاہ سے بے کینہ ہو جائے۔ اللہ والے اس لیے طہارتِ قلبی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اور جو اس منزل سے ہمکنار ہو جاتا ہے‘ وہ دریائے وحدت کے اس پار ہو جاتا ہے‘ جہاں باطن ہی باطن ہے۔

اس کی وضاحت کے لیے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے شیخ صنعان کا مفصل واقعہ بیان فرمایا۔ شیخ صنعان رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدِ خاص‘ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حج کے لیے جا رہے تھے کہ حُسنِ اتفاق سے ان کی نظر سور پالنے والوں کی ایک خوبرو دوشیزہ پر پڑ گئی تو آپ اس پر عاشق ہو گئے اور وہیں بیٹھ گئے اور اپنے مریدِ خاص کو آزاد کر دیا۔ دوشیزہ کے وارثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ لڑکی کی شادی مجھ سے کر دیں کیونکہ میں اس پر فریفتہ ہو چکا ہوں۔ انہوں نے اپنا مذہب بنانے کی غرض سے نکاح سے پہلے سور کا کھانا کھانے کی شرط رکھی جو شیخ صنعان نے منظور کر لی۔ جب اِدھر دستر خوان بچھ گیا تو اُدھر حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آج کسی کا پیر کافر ہونے لگا ہے۔ خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے پائوں پکڑ کر عرض کی حضور بچا لیں! وہ میرا مرشد ہے۔ آپ نے وضو کے لیے جو پانی اپنے چُلّو میں لے رکھا تھا، وہی پانی آسمان کی طرف اچھال دیا۔ اس پانی کے چھینٹے شیخ صنعان رحمۃ اللہ علیہ کے چہرے اور پیشانی پر پڑے تو حجاب اٹھ گیا اور ان کی اصلی حالت آشکار ہو گئی۔ تو آپ نے فوراً لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے بھاگے کہ یہ سب کیا ہے اور میں کہاں ہوں۔ سیدھے حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے قدمِ مبارک پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگائے اور کہا حضور آپ کا قدم اولیاء عظام کی گردن پر اور میری آنکھوں پر ہے۔ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی کہ میں نے آپ کے فرمان  قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ  کو تسلیم نہ کیا۔ معاف فرما دیں۔

اس روایت سے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے تین نکات کی وضاحت فرمائی:

(۱)     حضور محبوبِ سبحانی رضی اللہ عنہ کی زبانِ اطہر سے نکلے ہوئے کلمات بالکل صحیح ثابت ہوئے‘ اس لیے شیخ صنعان رحمۃ اللہ علیہ نے سوروں کو اپنے کاندھوں پر سوار کیا۔

(۲)    ولی اللہ کے پائوں کے نیچے زمین سکڑتی ہے۔ شیخ صنعان نے اتنا طویل فاصلہ اتنے تھوڑے وقت میں طے کر لیا۔ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ وضو مکمل نہ کر پائے تھے بلکہ پائوں کا مسح کر رہے تھے جب شیخ صنعان رحمۃ اللہ علیہ نے حاضر ہو کر قدم مبارک آنکھوں سے لگا لیے۔

(۳)    اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد کسی چھوٹی موٹی غلطی یا گناہ پر ولایت واپس نہیں لیتا بلکہ وقتی طور پر اس پر حجاب کر دیتا ہے۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے