جمعہ، 30 مئی، 2014

پاکستان کے وجود قائم ہونے کی پیشین گوئی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

کشف و کرامات کا سلسلہ خود صاحبِ نظر یا خود صاحبِ مکاشفہ کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ کرامتیں اس کے فیوضِ روحانی کی کرنیں ہوتی ہیں‘ جو گاہے بگاہے پھوٹتی رہتی ہیں۔ اصل کرامت یہ ہے کہ اس کا کوئی فعل خلافِ سنت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ فطرت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ حقیقت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ شریعت نہ ہو‘ کوئی فعل خلافِ طریقت نہ ہو۔

۱۹۴۶ء میں ہندوستان میں وفاقی الیکشن کے موقع پر حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے اپنے تمام مریدین کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی ہدایت فرمائی۔ آپ بذاتِ خود بھی روڑس پیدل چل کر ووٹ ڈالنے گئے۔ معتقدین کی پیشکش پر آپ نے گھوڑے اور چھتری کے استعمال کو نامنظور فرمایا اور کہا کہ یہ قوم کا مسئلہ ہے‘ میں پیدل چل کر ووٹ کا حق استعمال کروں گا۔ اس موقعہ پر آپ سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کی پیشین گوئی فرمائی جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پوری ہو گئی۔ مردِ کامل وہی ہوتا ہے جس کے منہ سے جو بات نکل جائے‘ وہ ہو جائے۔ یہ اللہ والوں کی ادنیٰ نشانی ہے کہ منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی۔

حضور سرکارِ عالی قدس سرہ‘ العزیز کی کرامات لا تعداد ہیں۔ انہیں بیان کیا جائے تو الگ کتاب مرتب ہو جائے۔ بیشتر کرامات اس وقت یکجا کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ کافی مریدین ہندوستان میں رہ گئے‘ اکثر دنیا سے رخت ِ سفر باندھ گئے۔ بہر نوع‘ آپ قدس سرہٗ العزیز کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ نے تریسٹھ سال کی عمر تک لاکھوں‘ کروڑوں مردہ دلوں کو زندہ کیا، ان کو اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ قربِ الٰہی سے سرفراز فرمایا۔ اس مادیت کے دور میں امت ِ محمدیہ کی یہ بہت بڑی خدمت تھی۔


 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے