جمعہ، 6 جون، 2014

کافی شاپ لٹا دی – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

چلہ کشی کا دور مکمل کرنے کے بعد آپ نے شیخ عبد الرحمان فضل کریم ملٹری کنٹریکٹر کے ہاں بطورِ جنرل منیجر کافی شاپ پر ملازمت اختیار کر لی۔ ان دنوں آپ پر زیادہ تر جذب کی کیفیت طاری رہتی۔ اس جذبۂ عشق کے تحت آپ نے کافی شاپ لٹا دی۔ تین دن تک گورے کافی شاپ لوٹتے رہے‘ اس کے بعد آپ نے لنگر جاری کر دیا۔ تین روز تک مسلسل گورے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ شیخ برادرز پہنچے تو بڑے سٹ پٹائے اور واویلا کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ہم نے اللہ کا مال لٹایا ہے‘ تم اپنا سامان پورا کر لو‘‘۔ چیکنگ پر تمام سامان سٹاک رجسٹر کے مطابق دوکان میں موجود پایا گیا۔ ایک سگریٹ تک کم نہ نکلا۔ اس کرامت کے ظاہر ہونے پر آپ نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ اپر باڑیاں چاؤنی کی مسجد میں تشریف لے آئے۔ وہاں اس علاقے کے ایک بزرگ‘ فقیر اللہ صاحب بھی آ گئے۔ انہوں نے طنزاً کہا کہ شاہ صاحب! پرایا مال اس طرح نہیں لٹایا کرتے۔ چونکہ یہ بزرگ محض بزرگ تھے‘ صاحبِ نظر نہ تھے۔ آپ نے جب اس کی بات سنی تو رقت طاری ہو گئی۔ آپ نے زور دار نعرہ بلند کیا جس سے مسجد کے محراب کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔ مسجد کی چھت سے کڑ کڑ کی آواز سن کر فقیر اللہ صاحب باہر کو بھاگے۔ آپ سرکار نے ان کا ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھا لیا اور فرمایا، جان اتنی پیاری ہے کہ خوف سے باہر بھاگ رہے ہو؟ جاؤ ظاہر اور باطن میں فرق کرنا سیکھو۔ تحقیق کے بغیر کوئی الزام دینا، گمان کرنا، گناہ ہے۔ یہ سن کر فقیر اللہ صاحب رخصت ہو گئے۔ فقیر اللہ‘ صاحبِ حال نہ تھے اور حضورِ پاک قدس سرہٗ العزیز کی باطنی پرواز کا اندازہ نہ کر سکے۔ راقم الحروف نے باڑیاں جا کر مسجد کے محراب میں وہ شگاف بہ چشمِ خود دیکھا ہے‘ جو اب بھی ’’نعرۂ محبوبِ ذات‘‘ کی گواہی دے رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے