جمعہ، 17 مئی، 2013

نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ قرآن کی روشنی میں

ازقلم: ڈاکٹر عباس علی قادری

ماہنامہ سوہنے مہربان (ماہِ رجب المرجب 1434ھ)

رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس نور ہے ۔اس شمارے میں نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

    حوالہ رقم 1

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ          ؀    سورۃ المائدہ  ٫۔ 15

ترجمہ!  بے شک آیا تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور  "یعنی محمدﷺ" اور ایک روشن کتاب[ یعنی قرآن مجید]۔

اس آیت میں نور سے مرادحضورﷺ ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآن ِ مجید ہے ۔

تنویر المقیاس من تفسیر ابنِ عباس  صفحہ نمبر 72
تفسیر ِ کبیر  جلد3  صفحہ 566۔
تفسیر خازن جلد اول صفحہ 441
تفسیر جلالین صفحہ 97
تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 32 .
تفسیر روح المعانی   پارہ نمبر 6    صفحہ 87 
تفسیر حقانی جلد 2 صفحہ21  وغیرہ

ملفوظاتِ محبوبِ ذات – اہل بیت سے مراد کون ہیں؟

ہمارے نبی اکرم ﷺ کی حدیث شریف (حدیث ِ کساء) کے مطابق اہلِ بیت ؊ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزگی اور عظمت کے اظہار کے لیے چن لیا۔ یہ مقدس ہستیاں حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام‘ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا‘ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام ہیں۔ اور ان کی محبت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کی زَبانِ اقدس سے فرض قرار دیا ہے۔ روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اپنی پیاری بیٹی سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے گئے اور سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو‘ حضرت مولا علی علیہ السلام کو اور حسنینِ کریمین علیہما السلام کو اپنی کملی مبارک میں چھپا کر فرمایا’’ بارِ الٰہ یہ میرے اہلِ ؊ بیت ہیں۔ ان سے ہر ناپاک چیز کو دور فرما دے۔ اس کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیتِ تطہیر نازل فرمائی۔

(حدیثِ شریفہ بحوالہ رسالہ گلستان‘ اجمیر شریف‘ ماہِ محرم‘ ۱۴۱۹ء؁، صفحہ ۱۲)

ہفتہ، 11 مئی، 2013

مناقبِ اہلِ بیت علیہم السلام – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز فرماتے تھے کہ اہلِ بیت کی مودت از روئے قرآن مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ آپ اس آیت کا حوالہ بھی دیتے کہ۔ (القرآن)

قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى               (پارہ ۲۵ سورۃ شوریٰ آیت ۲۳)

تشریح:۔    فرما دیجئے اے میرے محبوب! ان لوگوں سے کہ میں نے جو احسانات تم پر کیے ہیں یعنی تمہیں پاک کیا، اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا فرمائی‘ دانائی سکھائی‘ کتاب کا علم دیا، اس سے پہلے تم کھلی گمراہی میں تھے‘ ان کا میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا لیکن میرے اہلِ بیت ؊ سے مودت کرنا۔ پس یہ مودت امت پر فرض ہو گئی۔

نیز حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز درج ذیل آیت کے حوالے سے ساداتِ عظام کی عظمت و حرمت سب پر فرض قرار دیتے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

بدھ، 17 اپریل، 2013

صراطِ مستقیم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ العزیز نے اپنے خطبات میں فرمایا کہ میں شیعہ مذہب اور اہلِ سنت والجماعت کے عقیدوں اور ان کی فقہ سے ہٹ کر دین کے وہ اسلوب اختیار کیے ہوئے ہوں جو آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اور آپ کے صحابہ  کا تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ اور غوث الثقلین کی راہنمائی سے کسی کو برا نہ کہا۔ حضور پاک ﷺ کی حدیث ہے کہ میرے طریقے پر چلنے والوں کی جماعت میری جماعت ہے اور یہی سوادِ اعظم یعنی بڑی جماعت ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کہا ہے یہ میری جماعت ہے یعنی صحابہ کرام  کی جماعت جن کو اللہ تعالیٰ نے عشرہ مبشرہ اور الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون فرمایا ہے۔ یہی جماعت سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کی ہے جو 72 گروہوں میں سے صراطِ مستقیم پر گامزن ہے۔ اسی نظریے کے تحت حضور سرکارِ عالی نے ہمیشہ اہلِ بیت ؊ اور صحابہ کرام  کو اپنے مواعظ اور خطبات میں اوّلین اہمیت دی۔ اہلِ بیت ؊ سے حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو والہانہ محبت تھی۔ قرآنِ پاک کے حکم کے مطابق اہلِ بیت ؊ کی محبت فرض ہے۔ صحابہ کرام  کی فضیلت آپ کے اس عمل سے نمایاں ہے کہ آپ سرکار نے ان کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ جمعۃ المبارک میں ہمیشہ وہ خطبہ پڑھا جس میں اہلِ بیت ؊ اور صحابہ کرام  کے اسمائے گرامی پڑھے جاتے۔ یہ مقبول ترین خطبہ سارے پاکستان کی مساجد میں پڑھا جاتا ہے۔

پیر، 15 اپریل، 2013

یقینِ محکم – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

یقینِ محکم کے لئے ایک چرواہے کی مثال بیان فرمائی۔ اس چرواہے کو جنگل میں پیاس کی شدت نے تنگ کیا۔ اس نے ایک کنویں میں پانی دیکھنے کے لئے جھانکا تو دیکھا کہ ایک مرد اُلٹا لٹک رہا ہے۔ چرواہے نے اُلٹا لٹکنے کا سبب دریافت کیا تو مرد نے جواباً کہا کہ اس نے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا ہے۔ چرواہے کو یقین ہو گیا کہ یہ بہت آسان طریقہ ہے‘ پہلے یہی عمل کر لوں‘ پانی بعد میں پی لوں گا۔ پاس ہی بیری کا درخت تھا اس پر آکاس بیل چھائی ہوئی تھی۔ وہ بیری پر چڑھ کر آکاس بیل اتارنے میں لہو لہان ہو گیا کیونکہ بیری کے درخت میں کانٹے نوک دار ہوتے ہیں۔ اس نے رب کو حاصل کرنے کے لئے زخموں پر کوئی دھیان نہ دیا۔ آکاس بیل کچی ہوتی ہے‘ پھر بھی وہ اس سے رسا بنا کر اس درخت پر چڑھ گیا۔ آکاس بیل کے رسے کا ایک سرا درخت کے ٹہنے کے ساتھ باندھا اور دوسرا سرا اپنی ٹانگوں سے باندھ کر نیچے لٹک گیا۔ رسے میں کوئی جان نہ تھی مگر لٹکنے والا کامل یقین کا حامل تھا۔ وہ خدا کا قرب چاہتا تھا۔ بیل کا رسا ٹوٹ گیا۔ وہ گرا لیکن بیشتر اس کے کہ اس کا سر زمین سے ٹکراتا، اللہ تعالیٰ نے باطن کھول دیا۔ یہ یقینِ محکم ہے۔

جمعہ، 12 اپریل، 2013

مقاماتِ مقدسہ کی فضیلت – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

مقاماتِ مقدسہ‘ درباروں‘ خانقاہوں اور مزارات پر دعا کی مقبولیت‘ بہ نسبت عام جگہوں کے‘ جلد ہوتی ہے۔

(القرآن)     وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ         ﴿پاره ۱، سورة البقرة ، آية ۵۸﴾

ترجمہ۔ (بنی اسرائیل کو حکم ہوا) کہ وہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور کہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوں‘ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے۔ وہ دروازہ مقدس تھا اس لئے قبولیت ِ دعا کے لئے فائدہ مند تھا۔

پیر، 8 اپریل، 2013

قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ از روئے قرآن نور ہیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ از روئے قرآن نور ہیں

قرآنِ پاک کی رو سے قرآنِ مجید اور سرکارِ دو عالم‘ امام الانبیاء‘ خاتم النبیّن‘ احمد مجتبٰے محمد مصطفٰے ﷺ نور ہیں۔ دونوں ابد تک رہیں گے‘ ہمیشہ سے ہیں‘ ہمیشہ ہی رہیں گے۔ قرآن اور شریعت تا ابد رہیں گے۔ قیامت تک آئندہ نہ کوئی الہامی کتاب آئے گی اور نہ ہی کوئی نبی آئے گا، نہ ہی کوئی دوسری شریعت آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی حفاظت کا خود وعدہ فرمایا ہے اور جنابِ رسالت مآب ﷺ کی حدیث ِ پاک ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔